پکڑی نہ تھی کتاب کہ استاد ہو گئے
پکڑی نہ تھی کتاب کہ استاد ہو گئے
ہاتھ آ گئی غلیل تو صیاد ہو گئے
لے ہم نے کھول دی ہیں یہ آنکھیں شعور کی
لے ہم ترے فریب سے آزاد ہو گئے
تو نے اے زندگی جو سکھائے ہمیں سبق
آسانی سے ہمیں وہ سبق یاد ہو گئے
دنیا سے ڈر گئے جو وہ دنیا میں گم ہوئے
کرتے رہے جو عشق وہ فرہاد ہو گئے
یادیں تری ہمیں لیے پہنچی تھیں جس جگہ
ہم پھر اسی جزیرے پہ آباد ہو گئے
مصلوب ہو گئے جنہیں مطلب تھا عشق سے
دولت کی تھی طلب جنہیں شداد ہو گئے
یعنی کہ عشق چھوڑ کے سب کچھ کیا گیا
کیا کیا طریقے عشق کے ایجاد ہو گئے
تعمیر یوں ہوئے تھے کہ حیران تھے محل
اجڑے بھی یوں کہ صورت بغداد ہو گئے
تم کو بھلا نہ پائے گی تاریخ اب کبھی
عاقبؔ تم اب حوالہ بنیاد ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.