پل دو پل کو ابھرا ہی تھا ڈوب گیا
پل دو پل کو ابھرا ہی تھا ڈوب گیا
شور شرابے میں سناٹا ڈوب گیا
چنچل ارمانوں کا دریا ڈوب گیا
ریگ زار میں دل کے کیا کیا ڈوب گیا
عشق دوستی عزم وفا اور سچائی
مجبوری میں ہر اک جذبہ ڈوب گیا
ساحل پر تو اس کے لاکھوں ساتھی تھے
جب ڈوبا وہ شخص اکیلا ڈوب گیا
دور افق کے پار طلسمی وادی میں
وہ دیکھو اک اور ستارا ڈوب گیا
خوشحالی کی دھوپ میں سنگ سنگ رہا میرے
ظلمت میں وہ میرا سایہ ڈوب گیا
آنکھیں تھیں یا وہ مدرا کا ساگر تھیں
کیا کرتا پردیسی پیاسا ڈوب گیا
کار خیر میں دھن کو لٹایا سیماؔ نے
کس نے کہا اس کا سرمایہ ڈوب گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.