پل پل مری خواہش کو پھر انگیز کیے جائے
پل پل مری خواہش کو پھر انگیز کیے جائے
مجھ کو وہ مرے ظرف میں لبریز کیے جائے
یہ کون ہے جو آگ سی دہکائے لہو میں
اندر سے مری پیاس کو چنگیز کیے جائے
سودا ہے کوئی سر میں تو پھر ٹوٹے گی زنجیر
دیوانہ ابھی رقص جنوں تیز کیے جائے
گویا مری خوشبو کو وہ پہچان گیا ہے
اچھا ہے کہ مجھ سے ابھی پرہیز کیے جائے
پائے نہ مری گرد سفر بھی یہ زمانہ
رفتار بہت ہے جو وہ مہمیز کیے جائے
رکھے یونہی شاداب مجھے کشت غزل میں
موسم ترا مٹی مری زرخیز کیے جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.