پلکوں کی نوک سے اترتے رہے
اس قدر اشک خواب گرتے رہے
چاند کی طرح رات جاگے رہے
اور ہمارے نصیب سوتے رہے
دوست کیسے نکلتے پہلو سے
سانپ جو آستیں میں پلتے رہے
شرمگیں لہجوں کی تمازتوں میں
شب کے ماتھے پہ پھول کھلتے رہے
جب کوئی گھر نہیں رہا میرا
مہرباں پھر عدو کے خیمے رہے
ان سے تو وہ گریز پا نہیں ہے
ہم سے اچھے ہوا کے جھونکے رہے
ہجر کی آندھیوں میں بھی جاناں
معتبر تیرے شوخ لہجے رہے
دن تو برسات کے نہیں تھے مگر
ایک خوشبو میں پھول بھیگے رہے
وہ نظر کیا جھکی ہمارے لئے
عمر بھر دل کے تار الجھے رہے
تلخ کامی رہی وفاؤں میں
پھل کہاں اس شجر کے میٹھے رہے
اس قدر پر ملال موسم تھا
ذہن کے پور پور جلتے رہے
رات یادوں کے بند کمرے میں
ایک تصویر تھامے کھوئے رہے
ریت کے پیرہن میں لپٹے ہوئے
کس قدر بے لباس وعدے رہے
زندگی کی اساس تھے جو لوگ
حد ہے ان کے بغیر جیتے رہے
اشتہا جھوٹ تھی نگاہوں کی
با وفا بس نظر کے دھوکے رہے
ہم کو احساس تجھ سے مل کے ہوا
کتنے تیرے بغیر ادھورے رہے
ساحلوں پر بنے گھروندوں کے
کچھ عجیب و غریب دعوے رہے
حسرت دل زباں پہ لانے تک
مصلحت کے ہزاروں پردے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.