پلکوں سے اپنے بھولے ہوئے خواب باندھ لیں
پلکوں سے اپنے بھولے ہوئے خواب باندھ لیں
جب ٹھان لی سفر کی تو اسباب باندھ لیں
ساحل پہ کوئی غول نہ اس پر جھپٹ پڑے
ڈھونڈا ہے جو خزینہ تہہ آب باندھ لیں
اس آخری نظارے کو گر اپنا بس چلے
ہر شے کی دوڑ سے دل بے تاب باندھ لیں
جینا تو ہے ضرور مگر اپنے ارد گرد
کیوں اک حصار گنبد و محراب باندھ لیں
یوں ہو کہ آرزو نہ ابھر پائے پھر کبھی
دل کے لہو سے رشتۂ گرداب باندھ لیں
شانے سے اب سرکنے لگی ہے صلیب غم
رک کر ذرا بکھرتے ہوئے خواب باندھ لیں
منہا کچھ ایسے اپنی ہی تحریر سے ہوئے
جو بچ رہا ہے اب وہی اسباب باندھ لیں
شاہینؔ اس کی نذر کریں گے خراج دل
شیرازۂ جنوں میں نیا باب باندھ لیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.