پر ذرا ٹوٹے ہوئے سے مری تقدیر کے ہیں
پر ذرا ٹوٹے ہوئے سے مری تقدیر کے ہیں
حوصلے زندہ مگر آج بھی تعمیر کے ہیں
جب لہو آنکھ سے ٹپکے گا چمک جائیں گے
رنگ پھیکے ابھی احساس کی تصویر کے ہیں
خواب جو تم نے دکھائے تھے وہ سب دیکھ لیے
مسئلے اب تو یہاں خواب کی تعبیر کے ہیں
خوب پہچانتا ہے دل ترے تیروں کا مزاج
زخم جتنے بھی لگے ہیں وہ ترے تیر کے ہیں
زندگی ایک تسلسل غم و آلام کا ہے
اور ہم لوگ بھی قیدی اسی زنجیر کے ہیں
نفرتیں پھوٹ پڑیں بن کے لہو کا سیلاب
کتنے زہریلے یہ جملے تری تقریر کے ہیں
صاحب لوح و قلم اس کے سوا کوئی نہیں
سارے گل بوٹے نیازؔ اس کی ہی تحریر کے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.