پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں
پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں
پر اس کی آنکھ میں سپنے سجا کے آئی ہوں
میں کوزہ گر تو نہیں تھی مگر حقیقت ہے
میں اس کی مرضی کا اس کو بنا کے آئی ہوں
جسے بھی جانا ہو جائے چراغ جلتا ہوا
بڑا کٹھن تھا اگرچہ بجھا کے آئی ہوں
پلٹ تو آئی ہوں لیکن خموش دریا کو
سلگتی پیاس کا قصہ سنا کے آئی ہوں
وہ انتظار کرے گا مجھے یقیں ہے مگر
میں اب کبھی نہ ملوں گی بتا کے آئی ہوں
حضور عشق بتاؤ مجھے کہاں جاؤں
تمہیں خبر ہے میں ناؤ جلا کے آئی ہوں
وہ تیرے وعدے وہ باتیں وفا خلوص فرحؔ
میں کھارے پانی میں سب کچھ بہا کے آئی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.