پرائی بھیڑ میں کیسے جدا لگوں گا میں
پرائی بھیڑ میں کیسے جدا لگوں گا میں
اکیلا ہوں گا تو سب کو خدا لگوں گا میں
ابھی تو ریت کی صورت اڑا رہے ہو مجھے
ذرا سی دیر رکو آئنہ لگوں گا میں
برا لگے گا کوئی دن تجھے بدن کا خیال
پھر ایک شب ترے سینے سے آ لگوں گا میں
سفر میں تجھ پہ کبھی اہمیت کھلے گی مری
بھٹکنے والے تجھے راستہ لگوں گا میں
ترے غبار نے میری چمک گھٹا دی ہے
ہوا چلے گی تو پھر سے نیا لگوں گا میں
پہن لیا تھا کسی روز باپ کا جوتا
مجھے لگا تھا کہ ایسے بڑا لگوں گا میں
خدا پرستوں نے کافر سمجھ کے مار دیا
پتہ نہیں کہ فرشتوں کو کیا لگوں گا میں
شکست کھا کے بھی میری انا بچی رہے گی
اجڑتے وقت بھی اس کو ہرا لگوں گا میں
عجب نہیں ہے کہ مبہم رہے قریب کی شے
زمیں کی آنکھ سے دیکھو خلا لگوں گا میں
ہزاروں واقعے میں نے نگل لیے حمزہؔ
مورخین کو آتش کدہ لگوں گا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.