پرایا لگ رہا تھا جو وہی اپنا نکل آیا
پرایا لگ رہا تھا جو وہی اپنا نکل آیا
مرا اک اجنبی سے دور کا رشتہ نکل آیا
ابھی تک تو تری یادیں مری میراث تھیں لیکن
تصور میں کہاں سے اک نیا چہرہ نکل آیا
وہ دریا ہے یہ کہنے میں مجھے اب شرم آتی ہے
مجھے سیراب کیا کرتا وہ خود پیاسا نکل آیا
اسی امید پر سب اشک میں نے صرف کر ڈالے
اگر ان موتیوں میں ایک بھی سچا نکل آیا
وہ میری زندگی بھر کی کمائی ہی سہی لیکن
میں کیا کرتا وہی سکہ اگر کھوٹا نکل آیا
مجھے اس بزم میں یاد آ گئیں تنہائیاں اپنی
میں سب کو چھوڑ کے اس بزم سے تنہا نکل آیا
مجھے چاروں طرف سے منزلوں نے گھیر رکھا تھا
یہاں سے بھی نکلنے کا مگر رستہ نکل آیا
اندھیرا تھا تو یہ سارے شجر کتنے اکیلے تھے
کھلی جو دھوپ تو ہر پیڑ سے سایہ نکل آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.