پردہ پڑا ہوا تھا خودی نے اٹھا دیا
پردہ پڑا ہوا تھا خودی نے اٹھا دیا
اپنی ہی معرفت نے تمہارا پتہ دیا
در در کی ٹھوکروں نے شرف کو مٹا دیا
قدرت نے کیوں غریب کو انساں بنا دیا
اپنے وجود کا بھی تو کوئی ثبوت ہو
میں تھا کہاں کہ مجھ کو کسی نے مٹا دیا
اللہ رے جبہہ سائی خاک حریم دوست
بندے کو بندہ سجدے کو سجدا بنا دیا
حس مردہ تھی حیات مسلسل میں زیست کی
تخریب زندگی نے پیام بقا دیا
پھر اس کے گھر میں ہو نہ سکی روشنی کبھی
جس کا چراغ تو نے جلا کر بجھا دیا
کوئی خوشی خوشی نہیں اپنے لیے شفیقؔ
کس کی نگاہ نے سبق غم پڑھا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.