پردہ میں سمت غرب کے مہتاب بھی گیا
پردہ میں سمت غرب کے مہتاب بھی گیا
آیا نہ یار پاس مرا خواب بھی گیا
توبہ تو کی مگر نہ ہوئی دل کی کم ہوس
لو ہاتھ سے وہ جام مئے ناب بھی گیا
وہ سخت جاں ہوں میں کہ نہ آئی قضا مجھے
معدے میں بارہا مرے زہراب بھی گیا
مسجد میں سر جھکایا جو میں نے پئے نماز
سجدے کے ساتھ ہی خم محراب بھی گیا
سایہ فگن جو سر پہ مرے ابتدا سے تھا
ہے ہے وہ آج گلبن شاداب بھی گیا
یاد آئی ناخدا کو مری نا شناوری
سر پر سے جب گزر مرے سیلاب بھی گیا
آ یار ساتھ ساتھ شب پردہ پوش کے
اب تو فروغ مہر جہاں تاب بھی گیا
جادو خیال یار ہے اے ہم نشیں نہ پوچھ
پاس لحاظ داریٔ احباب بھی گیا
دنیا سے کیسے کیسے جفا کیش اٹھ گئے
ہم شادؔ ہی کو روتے تھے نایابؔ بھی گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.