پریشانی نہیں جاتی کہ حیرانی نہیں جاتی
پریشانی نہیں جاتی کہ حیرانی نہیں جاتی
نہیں جاتی تو ہاں تحریر پیشانی نہیں جاتی
نہ ہو اخلاص جس میں نذر وہ مانی نہیں جاتی
محبت کی کبھی بے کار قربانی نہیں جاتی
مرے حصہ میں تو آئی نہیں جمعیت خاطر
تری زلفوں کی آخر کیوں پریشانی نہیں جاتی
اگر تم سامنے آؤ تو کیا برپا قیامت ہو
کہ اس پردہ پہ بھی جلوؤں کی تابانی نہیں جاتی
جنوں مشرب بیاباں میں رہیں یا باغ میں لیکن
برنگ گل کہیں بھی چاک دامانی نہیں جاتی
تمہاری بات تو ہے اور لیکن ہم غریبوں کو
جو مشکل پیش آتی ہے بہ آسانی نہیں جاتی
رہی ہیں جن سے باتیں مدتوں خلوت میں جلوت میں
اب ان سے بھی مری آواز پہچانی نہیں جاتی
مصائب کی گھٹاؤں میں نہیں بجھتے مرے تیور
سواد ظلم میں چہرہ کی تابانی نہیں جاتی
نگاہ مہر ان کی لاکھ پردہ پوش ہو واصفؔ
گنہ گار محبت کی پشیمانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.