پتہ ملتا نہیں دل کا کہاں جنس گراں رکھ دی
پتہ ملتا نہیں دل کا کہاں جنس گراں رکھ دی
اسی سے زندگانی تھی یہ شے ہم نے کہاں رکھ دی
گزاری زندگانی ہم نے یوں خانہ بدوشی میں
جہاں تنکے نظر آئے بنائے آشیاں رکھ دی
مٹانے کو اندھیرا قبر کا ہے داغ دل کافی
یہ شمع کیوں سر مرقد اڑانے کو دھواں رکھ دی
پرائی آگ میں پڑ کر جو جی پر کھیل جاتے ہیں
خدا نے ان کے حصے میں حیات جاوداں رکھ دی
کیا بیتاب ایسا لذت شوق شہادت نے
رگ جاں میں بھرے نشتر کلیجے میں سناں رکھ دی
بھلا دیکھیں تو اب کیوں کر نہ ان کا دل پسیجے گا
دہن میں نامہ بر کے کاٹ کر اپنی زباں رکھ دی
ستم ہے غیر تو ہیں باوفا میں بے وفا ٹھہرا
مجھی پہ تم نے کیوں تہمت نصیب دشمناں رکھ دی
وہیں ہے چشمۂ زمزم جہاں پر بیٹھ کر پی لی
وہیں مے خانہ ہے مجھ رند نے بوتل جہاں رکھ دی
سخن ور وجد کرتے ہیں ترے اشعار سن سن کر
غزل میں بات ایسی تو نے نازؔ نکتہ داں رکھ دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.