پٹریوں پر کوئی قبرستان بنوائے گئے
پٹریوں پر کوئی قبرستان بنوائے گئے
ریل کی کھڑکی میں کتنے خواب دفنائے گئے
ٹمٹما کر کچھ ستارے یوں پکارے بات سن
جانتا ہے کتنے تارے بلب سے کھائے گئے
جن چھتوں پر ہوتے تھے کل تک مناظر وصل کے
آج ان پر خود کشی کرتے جواں پائے گئے
چشم بینا نے جہاں میں کیا نہیں دیکھا میاں
چلتی پھرتی قبر پر بھی پھول برسائے گئے
ہر کسی کے گھر پہ ٹنکی نسب ہے پانی کی پر
قطرہ قطرہ آب کو گھر والے ترسائے گئے
آسماں کے کالے جنگل میں تھیں جتنی وحشتیں
دور کرنے کے لیے یہ دیپ جلوائے گئے
پتھروں کا شہر دکھتا ہے یہ دریا ہوتا تھا
اس قدر پتھر ہمارے دل پہ برسائے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.