پتہ پتہ کیوں ہے دل افگار اس گلزار کا
پتہ پتہ کیوں ہے دل افگار اس گلزار کا
گل سے گل برہم ہے کیوں کیا ہے سبب تکرار کا
سہمے سہمے سے ہیں کیوں سب غنچہ و گل برگ آج
کس نے چھینا ہے گلوں کے لب سے حق اظہار کا
زہر کو دی چھوٹ کس نے پھیلنے کی ہر طرف
خوشبوؤں پر کیوں کڑا پہرا ہے پہرے دار کا
بلبلیں ہے بے سری خبریں یہ کس نے ہیں گڑھی
کس نے کوے کو دیا ہے مرتبہ فنکار کا
کون ہے جس نے اندھیروں کو دیا ہے اختیار
روک لو پوری طرح سے راستہ انوار کا
گل کھلانے کا سلیقہ تو اسے آیا نہیں
نام گل ہے رکھ دیا بس باغباں نے خار کا
بج رہا ہر بزم میں اب راگ درباری فقط
کس کی جرأت ہے کہ گائے راگ اب ملہار کا
کیوں ہمیں ان سے توقع تھی چمن بندی کی اف
وہ جنہیں بس تجربہ تھا غارت گلزار کا
ہو رہی ہے بارش اکرام باطل پر مدام
اور عطا حق کو ہوا ہے اب لقب غدار کا
دھنس رہا ہے اور بھی غربت میں ہر غربت زدہ
اور مسلسل بڑھ رہا ہے مال و زر زردار کا
کھیل چلتا ہے سیاست کا اسی کے زر سے جب
کیوں نہ ہو سرکار میں پھر دخل ساہوکار کا
کام دھندے تو پڑے ہیں سب کے سب ٹھپ آج کل
گرم ہے بازار بس نفرت کے کاروبار کا
سر جھکانا مت کبھی ظلم و ستم کے سامنے
ہے صداؔ کاندھے پہ تیرے سر اگر سردار کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.