پتے تمام حلقۂ صرصر میں رہ گئے
ہم شاخ سبز میں شجر تر میں رہ گئے
لکھ لینا اس قدر وہ سفینے نہیں مرے
ساحل پہ رہ گئے جو سمندر میں رہ گئے
اس لذت سفر کو میں اب ان سے کیا کہوں
جو سایہ ہائے سرو و صنوبر میں رہ گئے
آثار یک خرابۂ آباد ہو کے ہم
سینوں میں رہ نہ پائے تو پتھر میں رہ گئے
باہر ہی چھوڑ آئے وہ چہرہ جو خاص تھا
اک عام آدمی کی طرح گھر میں رہ گئے
رسوا انہیں بدن کے تقاضوں نے کر دیا
کیا لوگ تھے جو ٹوٹ کے پل بھر میں رہ گئے
تم تو انا کا ایک جزیرہ ہو سوچ لو
ایسے کئی جزیرے سمندر میں رہ گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.