پتھروں کے درمیاں کیا کیا فسانے رکھ دئے
پتھروں کے درمیاں کیا کیا فسانے رکھ دئے
قید کر کے ہم نے لمحوں میں زمانے رکھ دئے
بھیگی پلکیں اس کے دامن سے لپٹ کر کہہ گئیں
عمر کی راہوں میں ہم نے یہ خزانے رکھ دئے
ہجرتوں کے زخم سارے ایک پل میں بھر گئے
اپنے بازو اس نے جب میرے سرہانے رکھ دئے
جاگتی آنکھیں ہیں میں ہوں اور اجالوں کا سفر
خواب جب سے اس نے پلکوں پر سہانے رکھ دئے
ذہن کی دیوار پر اترے ہیں ماضی کے پرند
خواہشوں کے پھر کسی نے چھت پہ دانے رکھ دئے
کس کے چہرے پر لکھی ہے داستاں کس کی نسیمؔ
ہم نے سب کے سامنے آئینہ خانے رکھ دئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.