پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو
پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو
نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو
ہے سفر درپیش تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ
راہ میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو
پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ آخری سیڑھی پہ آنکھ
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو
ذہن خالی ہو گئے ہیں وقت کے احساس سے
سامنے وو مسئلہ رکھ جس کا کوئی حل نہ ہو
سب کے ہی سینوں میں ہے پھیلا ہوا سانسوں کا حبس
کوئی شہر ایسا نہیں جس کی فضا بوجھل نہ ہو
لوگ اکثر اپنے چہرے پر چڑھا لیتے ہیں خول
تو جسے سونا سمجھتا ہے کہیں پیتل نہ ہو
جستجو اس پیڑ کی کیوں ہو کہ جو سایہ نہ دے
ہاتھ اس ڈالی پہ کیا پہنچے کہ جس پر پھل نہ ہو
روز و شب لگتا رہے سوچوں کا میلہ ذہن میں
شور سے خالی کبھی احساس کا جنگل نہ ہو
گرم کر ساجدؔ لہو کو دھیمی دھیمی آنچ سے
وقت سے پہلے ترے جذبات میں ہلچل نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.