پھینکا ہوا گل بھی ترا پتھر کا مزہ دے
پھینکا ہوا گل بھی ترا پتھر کا مزہ دے
وہ بات بھی کہہ ڈال جو خنجر کا مزہ دے
دریا کو کھنگالوں بھی تو کچھ ہاتھ نہ آئے
اک اشک کو چکھوں تو سمندر کا مزہ دے
لٹ جائے نہ بیچارہ مسافر تو کرے کیا
پردیس کی ہر چیز اگر گھر کا مزہ دے
پھولوں سے بھری سیج کو تو اپنے لیے رکھ
یوگی ہوں مجھے کانٹوں کے بستر کا مزہ دے
بٹھلا دے کسی چلتی ہوئی راہ پہ اک دن
آنکھوں کو دھڑکتے ہوئے منظر کا مزہ دے
اڑتے ہوئے گر جاؤں سنبھل جاؤں اڑوں پھر
پرواز کبھی ٹوٹے ہوئے پر کا مزہ دے
پھر دیکھیں گے ہم بھی تری ایماں طلبی کو
اک بار تو اللہ تجھے زر کا مزہ دے
اے کاش میں باقرؔ کبھی وہ شعر بھی لکھوں
احساس کو جو زمزم و کوثر کا مزہ دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.