پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں
پھینکے ہوئے بے کار کھلونے کی طرح ہوں
میں باغ کے اجڑے ہوئے گوشے کی طرح ہوں
تو دل میں اترتی ہوئی خوشبو کی طرح ہے
میں جسم سے اترے ہوئے کپڑے کی طرح ہوں
کچھ اور بھی دن مجھ کو سمجھنے میں لگیں گے
میں خواب میں دیکھے ہوئے رستے کی طرح ہوں
سایہ سا یہ کس چیز کا ہے میرے وطن پر
میں کیوں کسی سہمے ہوئے قصے کی طرح ہوں
میں ماں ہوں ستائی ہوئی حد درجہ بہو کی
اور بیٹے پہ آئے ہوئے غصے کی طرح ہوں
ہو جائیں کبھی جا کے وہیں سندھ کنارے
باتیں کوئی دو چار جو پہلے کی طرح ہوں
اب تو کسی مہکار کی یادوں کا سفر ہے
اور میں کسی بھولے ہوئے قصے کی طرح ہوں
جس میں کوئی در ہے نہ دریچہ نہ مکیں ہے
اس گھر پہ لگائے ہوئے پہرے کی طرح ہوں
کیا ہوگی تلافی مرے نقصان کی اخترؔ
میں قید میں گزرے ہوئے عرصے کی طرح ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.