پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو دیکھو مرے مرنے کی تمنا دیکھو
ہم نہ کہتے تھے بناوٹ ہے یہ سارا غصہ
ہنس کے لو پھر وہ انھوں نے ہمیں دیکھا دیکھو
گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام دیکھو نہ مری جان سویرا دیکھو
محفل غیر میں بے پردہ تمہیں دیکھ لیا
اب کبھی ہم سے خبردار نہ چھپنا دیکھو
خانۂ جاں میں نمودار ہے اک پیکر نور
حسرتو آؤ رخ یار کا جلوہ دیکھو
دل کو رنگینیٔ خواہش کی خطا پر آخر
ملتی ہے اس گل رعنا سے سزا کیا دیکھو
سامنے سب کے مناسب نہیں ہم پر یہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصے میں دوپٹہ دیکھو
مر مٹے ہم تو کبھی یاد بھی تم نے نہ کیا
اب محبت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ دیکھو
سر کہیں بال کہیں ہاتھ کہیں پاؤں کہیں
ان کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو
اب وہ شوخی سے یہ کہتے ہیں ستم گر ہیں جو ہم
دل کسی اور سے کچھ روز کو بہلا دیکھو
واعظو منہ میں تمہارے بھی بھر آئے پانی
مئے رنگیں کا جو ساغر سے چھلکنا دیکھو
بات کیا ہے جو ہوئے جاتے ہو تم یوں ہی خفا
مجھ کو دیکھو نہ مرے دل کا دھڑکنا دیکھو
جرم نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب وہ روٹھے ہیں لو اور تماشا دیکھو
مستیٔ حسن سے اپنی بھی نہیں تم کو خبر
کیا سنو عرض مری حال مرا کیا دیکھو
دوستو ترک محبت کی نصیحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دل زار کو سمجھا دیکھو
ہوس دید مٹی ہے نہ مٹے گی حسرتؔ
دیکھنے کے لیے چاہو انہیں جتنا دیکھو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.