پھر نگاہوں کو وہی منظر پرانے دے گیا
پھر نگاہوں کو وہی منظر پرانے دے گیا
زندگی کے واسطے کیسے بہانے دے گیا
مجھ کو اپنی پشت پر رکھ کر ہوائیں لے اڑیں
اور میرا شوق مجھ کو تازیانے دے گیا
یہ کرم اس کا جو مجھ کو پتھروں کے شہر میں
جتنے بھی شیشوں کے تھے سب کارخانے دے گیا
میں نے اس سے کچھ نہیں مانگا مگر وہ خود مجھے
جو بھی اس کے پاس تھے سارے خزانے دے گیا
ایک ہی شب وہ یہاں ٹھہرا مگر جاتے ہوئے
کیا چھپا کر لے گیا اور کیا نہ جانے دے گیا
اس پرندے نے تو اک مدت سے کھایا تھا نہ کچھ
اک شکاری آج آ کر اس کو دانے دے گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.