پھر ان کی نگاہوں کے پیام آئے ہوئے ہیں
پھر ان کی نگاہوں کے پیام آئے ہوئے ہیں
پھر قلب و نظر بخت پہ اترائے ہوئے ہیں
پیمانہ بکف بیٹھ کے میخانے میں ساقی
ہم گردش حالات کو ٹھہرائے ہوئے ہیں
ماحول منور ہے معطر ہیں فضائیں
محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ آئے ہوئے ہیں
گیسو ہیں کہ برسات کی گھنگھور گھٹائیں
عارض ہیں کہ گل دودھ میں نہلائے ہوئے ہیں
کیا بخشیں گے وہ انجمن ناز کو زینت
جو پھول سر شاخ ہی مرجھائے ہوئے ہیں
ہو چشم کرم ان پہ بھی اے پیر خرابات
جو آبلہ پا در پہ ترے آئے ہوئے ہیں
ہے دشت نوردی ہی ندیمؔ ان کا مقدر
جو بارگہہ حسن سے ٹھکرائے ہوئے ہیں
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 234)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.