پھر وہی کرب گزارش وہی منشا اپنا
پھر وہی کرب گزارش وہی منشا اپنا
کوئی اظہار کی صورت نہ تقاضا اپنا
چہرہ در چہرہ لیے اپنے کیے کے تیور
جانے کس سوچ میں گم سم تھا مسیحا اپنا
آنکھوں آنکھوں کے یہ زینے یہ تعلق کی بساط
دل ہی الہام ہے اور دل ہی صحیفہ اپنا
اس مفاجات و مکافات کے معمورے میں
فرض یا عرض مناجات ہے حصہ اپنا
عکس در عکس کی اک طرفہ کشاکش کا اسیر
مسخ تھا آئنہ خانے میں سراپا اپنا
بے طنابی بھی بگولے بھی کشاکش بھی وہی
کیا ہوا دشت تمنا میں بھی خیمہ اپنا
خدمت خلق کا ایسے میں تصور بھی کیا
لوگ سب کچھ ہیں سنبھالے ہوئے اپنا اپنا
بے تکی بات ہے اڑ جائے گی بے پر راہیؔ
تم نے لکھا ہے ہواؤں پہ فسانہ اپنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.