پھری ہے کیوں نگہ دل ربا نہیں معلوم
پھری ہے کیوں نگہ دل ربا نہیں معلوم
ہے اس ادا میں بھی کس کی قضا نہیں معلوم
گلوں سے کس لئے بگڑی صبا نہیں معلوم
چلی یہ باغ میں کیسی ہوا نہیں معلوم
تمہیں پہ اپنی حیات و ممات کا ہے مدار
ہمیں تو اور کچھ اس کے سوا نہیں معلوم
طلب وہ کرتے ہیں آئینہ خیر ہو یا رب
بلا یہ لائے گا کیا دوسرا نہیں معلوم
تمہاری زلفیں ہیں بے طرح رات سے بل پر
کریں گی کس کو اسیر بلا نہیں معلوم
جلائے ہستیٔ عاشق کو یہ وہ شعلہ ہے
کچھ ان کو شوخیٔ رنگ حنا نہیں معلوم
ہمارے سامنے یکساں ہے رتبۂ رخ و زلف
ہمیں تفاوت صبح و مسا نہیں معلوم
سوال بوسہ تک ان سے کیا نہ ہم نے کبھی
وہ کس خطا پہ ہیں ہم سے خفا نہیں معلوم
بنا مزار بھی اپنا تو تیرے کوچے میں
مری وفا تجھے کیا بے وفا نہیں معلوم
جو راہ پوچھو تو کہتے ہیں رہروان عدم
بتائیں کیا ہمیں خود راستا نہیں معلوم
ہمارا حال بھی حیرت فزا ہے اے ہمدم
کہ اشک جاری ہیں اور ماجرا نہیں معلوم
خوشی یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں قتل کر کے مجھے
سزا تو دی ہے ولے کچھ خطا نہیں معلوم
مریض ہجر سے ضد ہے مرے مسیحا کو
وگرنہ کیا اسے اس کی دوا نہیں معلوم
ممانعت ہے جو طالبؔ کو بت پرستی کی
بنائے کعبہ تجھے شیخ کیا نہیں معلوم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.