پھول گالوں کو تو آنکھوں کو کنول کہتا رہا
پھول گالوں کو تو آنکھوں کو کنول کہتا رہا
جنگ تھی باہر گلی میں میں غزل کہتا رہا
مر رہے تھے رفتہ رفتہ میرے سب محصور دوست
اور میں مسجد میں رب لم یزل کہتا رہا
شاعری کی اور نظر انداز کی بچوں کی بھوک
چاند کو روٹی کا میں نعم البدل کہتا رہا
آ پڑا دل پر مرے آخر مرا کہنہ وجود
روز دستک دے کے اس گھر سے نکل کہتا رہا
آ گئی آخر مرے سر پر مرے دشمن کی فوج
میں بھی تیاری کروں گا آج کل کہتا رہا
طے نہ کر پایا کبھی اپنا تشخص ہی نسیمؔ
آب زمزم کو ہمیشہ گنگا جل کہتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.