پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی
پیتے ہی سرخ آنکھیں ہیں مست شراب کی
گرمی تو دیکھو ڈوبے ہوئے آفتاب کی
رخ سے جدا جو حشر میں تم نے نقاب کی
دنیا یہ تاب لائے گی دو آفتاب کی
ساقی یہ رقم سچ ہے جو مجھ پر حساب کی
بوتل پہ ہاتھ رکھ کے قسم کھا شراب کی
کیا کم تھا حسن باغ کہ اے باغبان حسن
اک شاخ تو نے اور لگا دی شباب کی
وہ تو رہا کلیم کے اصرار کا جواب
اور یہ جو تو نے طور کی مٹی خراب کی
موسیٰ کو اس نے سر پہ چڑھایا بھی تھا بہت
جلوے نے خوب طور کی مٹی خراب کی
پھیرو نہ آنکھیں تم مرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی
اللہ اس کا کچھ بھی جوانی پہ حق نہیں
برسوں دعائیں مانگی ہیں جس نے شباب کی
رکھیے معاف شیخ جی مسجد میں ہجو مے
باتیں خدا کے گھر میں نہ کیجے شراب کی
باغ جہاں میں اور بھی تم سے تو ہیں مگر
ہر پھول میں نہیں ہے نزاکت گلاب کی
جب سے گئے ہیں دیکھ کے تارے وہ اے قمرؔ
صورت بدل گئی ہے شب ماہتاب کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.