پکار اسے کہ اب اس خامشی کا حل نکلے
پکار اسے کہ اب اس خامشی کا حل نکلے
جواب آئے تو ممکن ہے بات چل نکلے
زمانہ آگ تھا اور عشق لو لگی رسی
ہزار جل کے بھی کب اس بلا کے بل نکلے
میں اپنی خاک پہ اک عمر تک برستا رہا
تھما تو دیکھا کہ کیچڑ میں کچھ کمل نکلے
میں جس میں خوش بھی تھا زندہ بھی تھا تمہارا بھی تھا
کئی زمانے نچوڑوں تو ایک پل نکلے
کچھ ایک خواب وہاں بو رہوں گا سوچا ہے
وہ نین اگر مرے نینوں سے بھی سجل نکلے
میں اپنے ہاتھوں کو روتا تھا ہر دعا کے بعد
خدا کے ہاتھ تو مجھ سے زیادہ شل نکلے
دیار عشق میں سب کا گزر نہیں ممکن
کئی جو پیروں پہ آئے تھے سر کے بل نکلے
بہار جذب ہے جس میں اسے بناتے ہوئے
تمام رنگ مرے کینوس پہ ڈل نکلے
جمی ہوئی تھی مری آنکھ اک الاؤ کے گرد
کچھ ایک خواب تو یوں ہی پگھل پگھل نکلے
بدل کے رکھ ہی دیا مجھ کو عمر بھر کے لیے
تری ہی طرح ترے غم بھی بے بدل نکلے
جو دل میں آئے تھے آہٹ اتار کر اپنی
وہ دل سے نکلے تو پھر کتنا پر خلل نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.