پر نور ہے جہان محبت کے داغ سے
پر نور ہے جہان محبت کے داغ سے
روشن ہے دیر و کعبہ اسی اک چراغ سے
بلبل کے نالے اور بھی وحشت بڑھائیں گے
تفریح خاک ہوگی مجھے سیر باغ سے
کافی ہے سر خوشی کو مری یاد چشم مست
مینا سے کچھ غرض ہے نہ مطلب ایاغ سے
اللہ منعموں کو بھی کیا ہی غرور ہے
لیتے ہیں یہ سلام بھی تو کس دماغ سے
دنیا میں جس نے جتنے کئے کم تعلقات
اتنی ہی اس نے اپنی بسر کی فراغ سے
دل دے نہ کوئی کوہ کن اور قیس کی طرح
آتی ہے روز و شب یہ صدا کوہ و راغ سے
بے بحث اگر تلاش سے ہوتا حصول کام
پا لیتا آب خضر سکندر سراغ سے
ہم رکھ دیں اس کے آگے کلیجا نکال کر
سن لیں خبر جو یار کے آنے کی زاغ سے
فرقت میں رنج و غم ہے فراغت کہاں خیالؔ
کوسوں ہے دور یہ دل محزوں فراغ سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.