پرانے عہد نامے گر افق پر نقش ہو جاتے
پرانے عہد نامے گر افق پر نقش ہو جاتے
مقدس ابر پارے اس زمیں کے زخم دھو جاتے
اگر اک سورما رن میں سویرے سر نہ دے جاتا
کئی بے نام پیادے شام کی گھاٹی میں کھو جاتے
حویلی سے طلسمی بانسری کی لے ندا دیتی
کہانی کہتے کہتے قصہ گو ڈیوڑھی میں سو جاتے
سلگتی تھی محلے میں نحوست کی اگربتی
فرشتے پھر یہاں عود سعادت کیسے بو جاتے
اگر آشفتگی کی آنچ سے دیدے نہ جل اٹھتے
پری زادوں کے پاؤں آنسوؤں سے ہم بھگو جاتے
چھلکتی ہوں گی آوازیں سماعت کے پیالوں سے
کبھی سوچا کہ اس منظر کو آنکھوں میں ڈبو جاتے
عقوبت گاہ دنیا سے چلے جب تو خیال آیا
خموشی کے بدن میں اپنی چیخیں ہی چبھو جاتے
ازل سے تھا یہی معمول بوڑھے دیوتاؤں کا
تھکن سے صبح دم بستر پہ گرتے اور سو جاتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.