پرانے چاند نئی دھوپ کی زبان میں ہے
پرانے چاند نئی دھوپ کی زبان میں ہے
مرا قصیدہ ترے جنگلوں کی شان میں ہے
ندی ہوں گرچہ پہاڑوں میں گنگناتی ہوئی
مرا شمار سمندر کے خاندان میں ہے
فضا میں اس کے علاوہ کوئی پرندہ نہیں
جسے اڑایا تھا میں نے وہی اڑان میں ہے
بس ایک اجڑا ہوا گھونسلہ ہے اور میں ہوں
گزرتے وقت کی سسکی بھی اس مکان میں ہے
مسافتوں میں کوئی دکھ نہیں تو میرے عزیز
نکل کے دھوپ میں دیکھے جو سائبان میں ہے
تری بہشت کی رنگینیاں کمال مگر
زمیں کا حسن بھی کیا تیری داستان میں ہے
ہجوم شہر سے نکلے تو انکشاف ہوا
کشش جنوں کے لئے دشت کی اذان میں ہے
ابھی ہے ہاتھ مرا تیشۂ تخیل پر
میں سوچتا ہوں جسے وہ ابھی چٹان میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.