پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے
پوچھ لو گر جھوٹ کہتا ہوں دل ناکام سے
صبح کی ہے آج بھی رو رو کے میں نے شام سے
سابقہ ہے روز فردا اس بت خود کام سے
قبر میں سونے دے اے دل دو گھڑی آرام سے
رو رہے ہیں اب تو دشمن بھی جنازے پر کھڑے
آپ بھی گردن اٹھا کر دیکھ لیتے بام سے
آ گئی ہے یاد مجھ کو گردش چشم نگار
ساقیا نظارۂ دور مئے گلفام سے
کوئی مر جائے کہ فرقت میں رہے زندہ بگور
ان کو اپنے کام سے مطلب ہے اپنے نام سے
چھٹ کے پیشانی کی افشاں دیکھیں کس کس پر گرے
بجلیاں ناحق گراتے ہیں وہ بیٹھے بام سے
بعد مردن ہو گلی اس کی کہ دشت خار خار
واں بھی رہتے چین سے اور یاں بھی ہیں آرام سے
زہر ہو لیکن وہ مجھ کو اپنے ہاتھوں سے تو دے
یوں تو مطلب جام سے ہے اور نہ دور جام سے
عاشقی اچھی سہی انجام عشق اچھا نہیں
اے حقیرؔ اب درگزر کر اس خیال خام سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.