پوچھتے ہیں تری حسرت کیا ہے
پوچھتے ہیں تری حسرت کیا ہے
آج مجھ پر یہ عنایت کیا ہے
کیا کہوں رنگ طبیعت کیا ہے
ایک آفت ہے محبت کیا ہے
ذبح کرتے ہو جو منہ پھیر کے تم
ایسی بھی میری مروت کیا ہے
جس میں تم خوش اسی میں میں خوش ہوں
رنج کیا چیز ہے راحت کیا ہے
بولتی ہی نہیں تصویر تری
پھر مرے جینے کی صورت کیا ہے
کسی آوارہ وطن سے پوچھو
مہرباں واریٔ غربت کیا ہے
ذبح کے وقت رکا بھی خنجر
یہ نہ پوچھا تری حسرت کیا ہے
عمر گزری اسی کے کوچے میں
ہم سے پوچھو کہ محبت کیا ہے
مے ہو سبزہ ہو گھٹا ہو تم ہو
اس سے اچھی مجھے جنت کیا ہے
غیر سے وعدہ لحد پر میری
یہ قیامت سر تربت کیا ہے
یہ تو ہے عین محبت اے دل
ان کے شکوے کی شکایت کیا ہے
شیخ جی روزہ تو دن میں ہوگا
شب کو پینے میں قباحت کیا ہے
مجھ سے کہتی ہے یہ وحشت میری
گھر میں رہنے کی ضرورت کیا ہے
بھول کر بھی نہ کبھی یہ پوچھا
حال بیمار محبت کیا ہے
ہم نے خود پینے سے توبہ کر لی
شیخ صاحب کی کرامت کیا ہے
سجدے کرتا ہوں در جاناں پر
اور آئین محبت کیا ہے
ذکر مے اور جناب واعظ
نہیں معلوم کہ نیت کیا ہے
ایک ٹھوکر سے اٹھی ہے سو بار
آپ کے آگے قیامت کیا ہے
جان ہی لے کے ٹلے گی صفدرؔ
اک بلا ہے شب فرقت کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.