پیار کا قرض ادھورا ہے چکاؤں کیسے
پیار کا قرض ادھورا ہے چکاؤں کیسے
تجھ سے وعدہ جو کیا ہے وہ نبھاؤں کیسے
مجھ کو پردیس لئے جاتی ہے یہ فکر معاش
سوچتا ہوں کہ تجھے چھوڑ کے جاؤں کیسے
اب تو ہر ایک یہاں اپنی ہی دھن میں ہے مگن
حال دل اپنا کسے اور سناؤں کیسے
ایک طوفان ہے نفرت کا مرے چاروں طرف
پیار اک کاغذی کشتی ہے بچاؤں کیسے
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں مری ان آنکھوں میں
دل میں جو آگ لگی ہے وہ بجھاؤں کیسے
اک ترا غم ہی اٹھایا نہیں جاتا مجھ سے
بوجھ دنیا کا بتا تو ہی اٹھاؤں کیسے
میری خودداری اجازت نہیں دیتی ساغرؔ
سر در غیر پہ اپنا میں جھکاؤں کیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.