پیاس کے پھول کھلیں غم کی تمازت جاگے
پیاس کے پھول کھلیں غم کی تمازت جاگے
اس برس فکر کی اک اور روایت جاگے
کوئی تنہائی کا ماتم بھی کرے تو کیسے
ایک دیوار بھی گونجے تو قیامت جاگے
روح سقراط کی ہے جسم ہے تریاک مرا
زہر پی لوں تو ہر اک سمت حلاوت جاگے
میری تعبیر کا سورج بھی چمکنا سیکھے
خواب کے شہر میں میرے بھی تو خلقت جاگے
راس کیوں آئے نہ پھر جاگتا ماحول اخترؔ
شہر سو جائے تو لوگوں میں عداوت جاگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.