پیاس کو دریا رہا اور خاک کو صحرا رہا
پیاس کو دریا رہا اور خاک کو صحرا رہا
اس کے معنی یہ ہوئے کے یہ سفر اچھا رہا
اب میں ڈوبا تب میں ڈوبا بس اسی امید میں
اک سمندر پاس میرے رات بھر بیٹھا رہا
میں کوئی منزل نہیں تھا میل کا پتھر تھا بس
بعد میرے بھی مسلسل راستہ چلتا رہا
ایک آہٹ آ کے میرے در سے واپس ہو گئی
اور میں کانوں کو تکیے سے دبا سوتا رہا
سن لیا تھا ایک دن اک سانس ہوگی آخری
اور پھر ہر سانس پہ اس سانس کا دھڑکا رہا
اک ذرا حضرت نے سب کچھ ہی بدل کر رکھ دیا
جو کبھی اک شخص تھا اب وہ فقط چہرہ رہا
زندگی اب اور کوئی غم دیا تو دیکھیو
خاک کر دوں گا تجھے میں یہ مرا وعدہ رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.