پیاسے چہروں پر لگتے ہیں خالی ہاتھ دعاؤں کے
پیاسے چہروں پر لگتے ہیں خالی ہاتھ دعاؤں کے
پھر بھی کون سمجھ سکتا ہے دکھ سوکھے دریاؤں کے
جتنی بار لکھا ہے میں نے تیرا نام درختوں پر
تجھ کو نام سے جانتے ہوں گے پنچھی میرے گاؤں کے
اپنی مرضی کرنے والے ان کی بات نہیں سنتے
ہم جیسوں پر چل جاتے ہیں سارے زور خداؤں کے
تیرے ہاتھ میں خود کو دے کر نادانی کر بیٹھا ہوں
دھوپ کی گود میں کب پلتے ہیں بیٹے ٹھنڈی چھاؤں کے
دانش نقویؔ دیکھ رہے ہیں حیرانی اور حسرت سے
اس کی اپنی دو جھیلیں ہیں ہم بندے صحراؤں کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.