قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا
دلچسپ معلومات
(3مارچ 1942ء ) (مراد ہے حضرت برقؔ دہلوی سے) (یوم برقؔ )
قابل دید تھا جو رنگ بھی تغییر میں تھا
لطف دنیا کی بدلتی ہوئی تصویر میں تھا
حرف بے کار تھا جو کچھ مری تقدیر میں تھا
حل ہر اک عقدۂ دشوار کا تدبیر میں تھا
میری تقصیر نے انسان بنایا مجھ کو
میری اصلاح کا پہلو مری تعزیر میں تھا
اب سزاوار فنا کوئی بنا لے ورنہ
مدعا زیست کا مضمر مری تقصیر میں تھا
خاک دنیا پہ اسیری کی لگائیں تہمت
پاؤں پہلے ہی سے الجھا ہوا زنجیر میں تھا
ایک مجموعۂ ضدین تھی ہستی میری
جزو تخریب بھی شامل مری تعمیر میں تھا
میرے جذبات کا اظہار مکمل کرتا
حوصلہ اتنا قلم میں تھا نہ تقریر میں تھا
سب مرے حسن تخیل کی فسوں کاری تھی
خواب میں تھا نہ اثر خواب کی تعبیر میں تھا
نہ ہوئی ہاں نہ ہوئی اور کسی کو توفیق
دل مرحوم کا ماتم مری تقدیر میں تھا
یوں نہ فی الفور ہوئیں میری دعائیں مقبول
امتحاں صبر کا پنہاں تری تاخیر میں تھا
اور روداد الم کیسے مکمل ہوتی
غم استاد بھی طالبؔ تری تقدیر میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.