قافلے گئے پھر بھی کچھ غبار باقی ہے
قافلے گئے پھر بھی کچھ غبار باقی ہے
دید کا تری اب تک انتظار باقی ہے
دل کو ٹوٹنا ہی تھا ٹوٹ کے وہ بکھرا بھی
ہاں مگر ابھی تک کچھ یادگار باقی ہے
ڈوبتی رہی کشتی ساگروں کی لہروں میں
ساحلوں پہ تم ہوں گے اعتبار باقی ہے
چاند خود مسافر ہے ساتھ کب تلک دے گا
رہبروں کا اب بھی کیوں انتظار باقی ہے
پھول بکھرے راہوں میں ہے حسیں سفر لیکن
راستے میں اب بھی کچھ خار زار باقی ہے
ختم ہو ہی جائے گی تیرگی غموں کی اب
صبح ہونے والی ہے انتظار باقی ہے
زندگی جو جینا ہے اس کے واسطے اے شادؔ
ڈھیر ساری خوشیوں کا آبشار باقی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.