قاصد نہ آوے ہے کوئی نامہ نہ آوے ہے
قاصد نہ آوے ہے کوئی نامہ نہ آوے ہے
مدت ہوئی ہے کوئی دلاسہ نہ آوے ہے
اس کی طرف سے تو کوئی لیت و لعل نہیں
لیکن ہمیں ہی عشق وغیرہ نہ آوے ہے
محو سفر تو ایک زمانے سے ہوں مگر
قابو میں اس کے شہر کا رستہ نہ آوے ہے
دیوے ہے جان مرغ تمنا تڑپ تڑپ
اس پر بھی اس کو لطف تماشا نہ آوے ہے
کوشش کئے بغیر سر میکدہ کہاں
بیٹھے بٹھائے ہاتھ میں پیمانہ آوے ہے
چپکے سے چھپ کے جاوے ہے بزم خیال سے
اس کو تو اور کوئی بہانہ نہ آوے ہے
جانے کو اس گلی میں تو جاویں ہیں سارے لوگ
لیکن کسی کو لوٹ کے آنا نہ آوے ہے
وہ خود ہی چل کے آوے تو بن جاوے کوئی بات
ورنہ خیال اس کا تو روزانہ آوے ہے
روکا ہے اس کو آنے سے ہم نے کہ اس کے ساتھ
اس گھر میں اپنا آوے ہے بیگانہ آوے ہے
نکلے ہوئے ہیں ڈھونڈنے جس دن سے ہم اسے
کوئی پتہ کہیں سے ہمارا نہ آوے ہے
تم بھی تو اس دیار کے آخر کو ہو لیے
جا کر جہاں سے کوئی دوبارہ نہ آوے ہے
جاؤں گا خود ہی اس کو بلانے کے واسطے
پیاسے کے پاس چل کے تو دریا نہ آوے ہے
پیمانۂ نگاہ ستم گر نہ ہو تو پھر
نامیؔ کسی شراب سے نشہ نہ آوے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.