قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات
قاتل سبھی تھے چل دئیے مقتل سے راتوں رات
تنہا کھڑی لرزتی رہی صرف میری ذات
تہذیب کی جو اونچی عمارت ہے ڈھا نہ دوں
جینے کے رکھ رکھاؤ سے ملتی نہیں نجات
خوابوں کی برف پگھلی تو ہر عکس دھل گیا
اپنوں کی بات بن گئی اک اجنبی کی بات
کانٹوں کی سیج پر چلوں شعلوں کی مے پیوں
سنگین مرحلوں کا سفر کون دے گا سات
سورج بھی تھک چکا ہے کہاں روشنی کرے
ورثے میں بٹ گئی ہے اندھیروں کی کائنات
سرگوشی بھی کروں تو بکھر جائے ایک گونج
بہروں کے اس ہجوم میں سنتا ہے کون بات
جھنجھلا کے کیوں نہ چھین لوں ٹوٹا ہے وہ عذاب
پھر وقت گھومتا ہے لئے درد کی زکات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.