قدم قدم پر تمہاری یوں تو عنایتیں بھی بہت ہوئی ہیں
قدم قدم پر تمہاری یوں تو عنایتیں بھی بہت ہوئی ہیں
مجھے مری بے نیازیوں پر ندامتیں بھی بہت ہوئی ہیں
یہ مت سمجھنا کہ آنسوؤں ہی سے بھیگ جاتی ہیں اس کی پلکیں
کہ بارہا چشم نم سے اس کی کرامتیں بھی بہت ہوئی ہیں
عجب تماشا ہے ظلم سہہ کر بھی سارے مظلوم مطمئن ہیں
انہیں کی جانب سے قاتلوں کی ضمانتیں بھی بہت ہوئی ہیں
محبتوں میں خموشیاں ہی جواب ہوتی ہیں معترض کا
اگرچہ کچھ بے ارادہ مجھ سے وضاحتیں بھی بہت ہوئی ہیں
ہوئی ہے اظہار آرزو میں خطائے تاخیر اس لیے بھی
رہ تمنا اجالنے میں طوالتیں بھی بہت ہوئی ہیں
شہابؔ ساحل سے باندھ رکھو ابھی پرانی وہ ناؤ اپنی
کہ جس پہ طوفانی ندیوں میں مسافتیں بھی بہت ہوئی ہیں
- کتاب : Kaghaz Ki Kashtiyan (Pg. 100)
- Author : Mustafa Shahab
- مطبع : Qalam Publications, Mumbai (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.