قدم قدم پہ عجب زلزلے مچلتے ہوئے
لرز لرز گیا طول سفر سے ڈرتے ہوئے
سنا رہا تھا وہ مجھ کو عجب عجب باتیں
بدن کا آخری زینہ مگر اترتے ہوئے
وہ آسمان کہ جس سے گمان عاجز تھا
زمین ایسی کہ ڈرتا ہوں پاؤں دھرتے ہوئے
نہ کوئی سایہ ہی اترا نہ غم کی رات کٹی
گزر گئیں کئی صدیاں ہوا سے لڑتے ہوئے
یہی نہیں کہ میں سفاک جھوٹ بولا تھا
اسے بھی خوف نہ تھا سامنے مکرتے ہوئے
یہ کون دور ہٹا میرے پاس آتے ہوئے
یہ کون آ گیا مجھ میں مجھ ہی سے ڈرتے ہوئے
میں اس کے واسطے ایک دشت خوف ناک رہا
وہ پار کرتا مجھے کیا ہوا سے ڈرتے ہوئے
بس ایک اشک تھا روشن جبیں ستارا سا
بس ایک پھول تھا بستر پہ شب گزرتے ہوئے
نشہ عجیب مرے حرف تیز تیز میں تھا
وہ ٹوٹ ٹوٹ گیا شعر میں اترتے ہوئے
جو ایک حرف مرے غم کا اسم اعظم تھا
اسی کو کھو دیا سب کچھ بیان کرتے ہوئے
امنڈ رہا تھا وہ اک موج تہ نشیں کی طرح
سمٹ رہا تھا میں چاروں طرف بکھرتے ہوئے
وہ حادثہ کسی دیوار کی تلاش میں تھا
ہزار در تھے مگر جان میں لرزتے ہوئے
تھما گیا مرے ہاتھوں میں جو دم رخصت
اس آئنہ کو ذرا دیکھ تو سنورتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.