قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے
قدم سنبھل کے بڑھاؤ کہ روشنی کم ہے
اگر یہ بھول نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے
گھروں کو آگ لگاؤ کہ روشنی کم ہے
یہیں سے بات بناؤ کہ روشنی کم ہے
جواب یہ کہ کوئی رہنمائے قوم ہیں آپ
اگر کسی کو بتاؤ کہ روشنی کم ہے
سحر کو شام سمجھنا جو بس کی بات نہیں
یہی سوال اٹھاؤ کہ روشنی کم ہے
شریک بزم سیاست ہیں کچھ برے چہرے
ذرا قریب تو آؤ کہ روشنی کم ہے
صدا لگاؤ کہ آنکھیں عجیب نعمت ہیں
انہیں یقین دلاؤ کہ روشنی کم ہے
کہیں جھپٹ نہ پڑیں دن میں مشعلیں لے کر
عوام کو نہ سجھاؤ کہ روشنی کم ہے
روا نہیں کہ کسی ڈوبتے ستارے کو
چراغ راہ بناؤ کہ روشنی کم ہے
سواد شام کے خاموش جگنوؤں سے کہو
تمہیں چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے
ذرا پہنچ کے تو دیکھو سواد منزل تک
تم اس خبر پہ نہ جاؤ کہ روشنی کم ہے
ہزار سال تو رہتا نہیں عبوری دور
فساد خوب اگاؤ کہ روشنی کم ہے
یہ شاعران غلط بیں کہیں گے اک دن شادؔ
ہمیں چراغ دکھاؤ کہ روشنی کم ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Shad Aarfi (Pg. 118)
- Author : Muzaffar Hanfi
- مطبع : National Academy Delhi (1975)
- اشاعت : 1975
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.