قدموں کے نشاں سب ماند پڑے جو سنگ میل تھا ٹوٹ گیا
قدموں کے نشاں سب ماند پڑے جو سنگ میل تھا ٹوٹ گیا
کچھ منزل مجھ سے چھوٹ گئی کچھ منزل سے میں چھوٹ گیا
چہرے کی معصومی تھی یا جلووں کا رعب تھا ہیبت تھی
بیٹھے تھے روپ سنگار کو وہ اور آئنہ گر کر ٹوٹ گیا
اب آپ اکیلے شہر میں ہیں کیا مجھ سے پاگل لوگ نہیں
اک میری قسمت پھوٹی تھی کیا سب کا مقدر پھوٹ گیا
تاریکی پھیلنے والی ہے سورج کو سنبھال کے رکھیے گا
دیوار پہ سائے بکھرے ہیں جو دھوپ کا رنگ تھا چھوٹ گیا
اس حسن و شباب پہ جتنا بھی ہو ناز و غرور ہے کم لیکن
سب جھوٹے تھے کب سچ بولے کچھ میں بھی کہہ کر جھوٹ گیا
رہبر تو نہ تھا رہزن بھی نہ تھا کیا اس کے تعارف میں بولوں
یا بے سر و ساماں میں ہی تھا یا جو کچھ تھا وہ لوٹ گیا
اک گندمی رنگ کا چہرہ تھا اور پھول شگوفہ لگتا تھا
پلکوں کو عدیمؔ وہ ٹھیس لگی گلدستہ خواب کا ٹوٹ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.