قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
قفس میں اشک حسرت پر مدار زندگانی ہے
یہی دانے کا دانا ہے یہی پانی کا پانی ہے
ملے تھے آج برسوں میں مگر اللہ کی قدرت
وہی صورت وہی رنگت وہی جوش جوانی ہے
ہمیں وہ جان بھی لیں گے ہمیں پہچان بھی لیں گے
اتر جائے گا سب نشہ ابھی چڑھتی جوانی ہے
کلیجے سے لگا رکھوں نہ کیوں درد جدائی کو
یہی تو اک دل مرحوم کی باقی نشانی ہے
یہ سچ ہے یا غلط ہم نے سنا ہے مرنے والوں سے
ترے خنجر میں قاتل چشمۂ حیواں کا پانی ہے
بتائے جاتے ہیں اوصاف وہ اپنی اداؤں کے
یہ شان دل رباعی ہے یہ طرز جاں ستانی ہے
یہاں کیا جانیے کس طرح دیکھا ہے تصور میں
وہاں اب تک وہی پردے کے اندر لن ترانی ہے
کریں تسخیر آؤ مل کے ہم تم دونوں عالم کو
ادھر جادو نگاہی ہے ادھر جادو بیانی ہے
جلیلؔ اک شعر بھی خالی نہ پایا درد و حسرت سے
غزل خوانی نہیں یہ در حقیقت نوحہ خوانی ہے
- کتاب : Kainat-e-Jalil Manakpuri (Pg. 108)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.