قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
قہقہے کی موت ہے یا موت کی آواز ہے
سسکیاں لیتا ہوا اب زندگی کا ساز ہے
ایک سایہ لڑکھڑاتا آ رہا ہے اس طرف
دیکھیے تو اک حقیقت سوچئے تو راز ہے
ریت میں منہ ڈال کر سانسوں کا اس کا روکنا
چند سکوں کے لئے بچہ بڑا جانباز ہے
سوچ کی منزل کہیں ہے اور آنکھیں ہیں کہیں
جانتا ہوں کس میں کتنی قوت پرواز ہے
دے رہا وہ دلاسے کیوں جفا کرنے کے بعد
چاہتا ہے مجھ سے کیا کیسا مرا ہم راز ہے
کس طرح ہوگا بیاں حال دل بیمار اب
آسماں برہم ہے اور خاموش چارہ ساز ہے
دور آیا ہے عجب انجمؔ یہاں ہشیار باش
زاغ ہے مخدوم اور خادم یہاں شہباز ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.