قید کرتا ہے نہ آزاد بڑی الجھن ہے
قید کرتا ہے نہ آزاد بڑی الجھن ہے
چاہتا کیا ہے تو صیاد بڑی الجھن ہے
اپنی آنکھوں کو میں کس نیزے پہ رکھ دوں جا کر
ریت پر رکھنی ہے بنیاد بڑی الجھن ہے
اپنی غزلوں کا بدن کس کے حوالے کر دوں
سب میں موجود ہیں نقاد بڑی الجھن ہے
دل کی تعمیر ادھوری ہے کئی صدیوں سے
کوئی کرتا نہیں امداد بڑی الجھن ہے
جسم کا بوجھ زمینوں میں نہ رکھ پاؤ گے
لوگ پہلے سے ہیں آباد بڑی الجھن ہے
پھر سے آثار قیامت کے بنے ہیں مجھ میں
پھر سے تم آنے لگے یاد بڑی الجھن ہے
کھینچ لایا ہے مجھے عشق عجب منزل پر
لکھی جاتی نہیں روداد بڑی الجھن ہے
غم ٹھہرتے ہیں یہاں دل ہے مسافر خانہ
دل کو تم کہتے ہو دلؔ شاد بڑی الجھن ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.