قلم کی نوک اور ترچھی نظر آغاز ہوتی ہے
قلم کی نوک اور ترچھی نظر آغاز ہوتی ہے
مری تنہا مزاجی جب مری ہم راز ہوتی ہے
چلے آئے ہیں ہم بھی دیکھنے اس رنگ محفل کو
سکوت شب جہاں یارو شب شیراز ہوتی ہے
تمہاری ذات سے منسوب ہو کر بس یہی جانا
ہمیشہ آگہی دل پر اثر انداز ہوتی ہے
لہو دینا گریباں چاک کر کے شعر کہہ لینا
ترنم میں غزل لیکن جگر کا ساز ہوتی ہے
اجالے اس لیے دامن کے سب تقسیم کرتا ہوں
جو شمع روشنی بانٹے وہی ممتاز ہوتی ہے
ترے چہرے کے خد و خال ہم سے بات کرتے ہیں
شکن ماتھے کی اس پر دل شکن آواز ہوتی ہے
زمین و آسماں گر ہو نظر میں بالیقیں جس کے
مکمل دو جہاں میں اس کی ہر پرواز ہوتی ہے
گلستاں خاص موقع پر مہکتا ہے مگر شاہدؔ
تری خوشبو ہواؤں کے لیے اعزاز ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.