قلم سے رابطۂ رنگ و آب ٹوٹ گیا
کسی مصور فطرت کا خواب ٹوٹ گیا
یہ دل کہ سنگ نہ تھا ایک آبگینہ تھا
نہ لا سکا ترے جلووں کی تاب ٹوٹ گیا
سوال یہ ہے کہ میں نے کسی سے کیا پایا
جواب یہ ہے کہ برسوں کا خواب ٹوٹ گیا
ہوا وہ مجھ سے مخاطب تو یوں لگا جیسے
کوئی ستارۂ گردوں رکاب ٹوٹ گیا
اصول آمد و رفت بہار کیا کہیے
کلی جو شاخ پہ آئی گلاب ٹوٹ گیا
غزل کے شعر جو رسوائے انتخاب ہوئے
بھرم نظر کا پس انتخاب ٹوٹ گیا
رہ ہوس میں تھی حائل ضمیر کی آواز
مگر تقدس عہد شباب ٹوٹ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.